gads

Sunday 13 July 2014

میں جس کے ظلم و ستم جھیلتا رہا چپ چاپ
مجھے وہ چھوڑ کے کیوں آج یوں چلا چپ چاپ
جو ایک عمر سے آنکھوں کی ضو بڑھاتا تھا
وہ عکسِ یار بھی اشکوں میں بہہ گیا چپ چاپ
کچھ اس طرح کہ رفیقوں کو بھی خبر نہ ہوئی
پرندہ تھک کے سرِ خاک آ گرا چپ چاپ
گلہ کیا نہ کبھی تجھ سے کوئی شکوہ کیا
اکیلا آگ میں فرقت کی میں جلا چپ چاپ
جدا کروں جو میں خود سے تو چیخ اٹھتا ہوں
وہ شخص میرے تصوّر میں یوں بسا چپ چاپ
اسے کہو کہ جو دل میں ہے صاف صاف کہے
جو مجھ کو مار رہا ہےخفا خفا چپ چاپ

No comments:

Post a Comment